ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ساحلی خبریں / محکمۂ پولیس الجھنوں کا شکار،حکومت کی دشواریوں میں اضافہ

محکمۂ پولیس الجھنوں کا شکار،حکومت کی دشواریوں میں اضافہ

Sun, 10 Jul 2016 11:27:20  SO Admin   S.O. News Service

بنگلورو9؍جولائی(ایس او نیوز) پولیس افسران کی خود کشی کے معاملات ریاستی حکومت کیلئے درد سر کا باعث بن سکتے ہیں ، محکمۂ پولیس میں پیش آرہے حالات وزیراعلیٰ سدرامیا کیلئے دشوار کن مرحلہ ثابت ہورہے ہیں۔ ریاست میں نظم ونسق کی برقراری کی ذمہ داری سنبھالنے والے محکمۂ پولیس کے ذریعہ ہی حکومت کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان حالات میں عوام میں سدرامیا کی ساکھ بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ ریاست میں مجرمانہ سرگرمیوں میں اضافہ کے علاوہ ڈی وائی ایس پی افسران کی سلسلہ وار خود کشیوں کے معاملات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ایسے میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ وزارت داخلہ کے مشیرو ریٹائرڈ آئی پی ایس آفیسر کیمپیا کے ذریعہ حکومت کو کس طرح کے مشورے دئے جارہے ہیں اور کیا کیمپا کے تجربات حکومت کیلئے فائدہ مند ثابت ہورہے ہیں۔ اسکولوں میں بچوں کے ساتھ جب جنسی ہراسانی کے واقعات پیش آئے تھے تب اس وقت کے وزیر داخلہ کے جے جارج کے ذریعہ میڈیا پر الزام عائد کرنے کے ذریعہ سدرامیا کی دشواریوں میں اضافہ کردیا تھا۔جب آئی اے ایس افسر ڈی کے روی کی موت ہوئی تھی اس وقت پوسٹ مارٹم سے قبل ہی تب کے پولیس کمشنر ایم این ریڈی نے اسے خود کشی قرار دینے کے ذریعہ نیا تنازعہ کھڑا کردیاتھا۔ اے ڈی جی پی رویندرا ناتھ کے استعفیٰ کے علاوہ غیر قانونی لاٹری دھندے میں پولیس افسران کے ملوث ہونے کے ثبوت ، کوڈلگی کی ڈی وائی ایس پی انوپما شینائی کا تبادلہ اور استعفیٰ کے بعد چکمگلور کے ڈی وائی ایس پی کلپا کی خود کشی اور اب ایک اور ڈی وائی ایس پی گنپتی کی خود کشی نے محکمۂ داخلہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ علاوہ ازیں ریاست کی تاریخ میں پہلی مرتبہ محکمۂ پولیس کے ذریعہ احتجاج کی پہل بھی ہوئی تھی۔ اس سے نمٹنے میں سدرامیا حکومت کو کافی دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ چند معاملات کیلئے متعلقہ وزیر کو ذمہ دار قرار دیاجاسکتا ہے، مگر ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وزارت داخلہ کے مشیر کیمپا کس طرح کے مشورے دے رہے ہیں۔ 2014میں وزارت داخلہ کے مشیر مقرر ہونے والے کیمپیا کے ذریعہ ان تمام حالات کو نمٹنے میں ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس سے قبل جب بی جے پی حکومت کے دور میں بی ایس آچاریہ وزیر داخلہ تھے ، اس وقت منگلور چرچ معاملے کو صحیح طریقے سے نمٹنے میں وہ ناکام رہے تاہم دیگر تمام معاملات میں وہ کامیاب رہے ان کی موت کے بعد آر اشوک کو داخلہ کا قلمدان دیا گیا تھا اس دور میں بھی نظم ونسق کے معاملے میں محتاط رویہ اختیار کیا گیا۔ اور نہ ہی اعلیٰ پولیس افسران پر ہراسانی کے سنگین الزامات عائد ہوئے ، بی جے پی دور حکومت میں دو وزرائے داخلہ گزرے مگر کبھی بھی انہوں نے مشیر کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ مگر سدرامیا حکومت میں وزیر داخلہ کے تبدیل ہونے کے باوجود بھی محکمہ میں مسائل برقرار ہیں۔ یکے بعد دیگرے مسائل میں محکمہ گھرتا جارہاہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وزارت داخلہ کے مشیر کیمپیا کیا کررہے ہیں اور کیا ان کی خدمات صرف تبادلوں تک ہی محدود ہے؟۔


Share: